زندہ بھاگ: پاکستانی فلم کی بحالی کا خواب
مٹیلا فلمز کے لیے ڈائریکٹر، مصنف
مینو گور اور فرجاد نبی کی پہلی فلم اسی سال اگست میں نمائش کے لیے پیش کر
دی جائے گی۔ فلم کے ٹریلر اور پوسٹر کے اجرا کے لیے پیر کو کراچی میں
کلفٹن کے علاقے کی ایک نئی کثیر منزلہ عمارت میں بننے والے ’اوشین سنیما‘
میں پریس شو کیا گیا۔
پریس شو میں الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندوں
کے علاوہ ٹی وی، اسٹیج کے اداکاروں، ہدایتکاروں اور پاکستانی فلمی صنعت سے
تعلق رکھنے والے کئی لوگوں نے شرکت کی۔اس فلم میں کے اداکاروں میں برصغیر کے نامور اداکار نصیر الدین شاہ کے ساتھ آمنہ الیاس، خرم پطرس، سلمان احمد خان اور زوہب نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ جب کہ پاکستانی فلم ’بول‘ سے شہرت پانے والے تجربہ کار اداکار منظر صہبائی نے مہمان اداکار کے طور پر کام کیا ہے۔
فلم کے لیے موسیقی ساحر علی بگہ نے مرتب کی ہے، جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی موسیقی کی وجہ سے پہلے ہی بالی ووڈ میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔
ٹریلر دکھائے جانے کے بعد فلم کے پروڈیوسر مظہر زیدی نے بتایا کہ فلم میں سات گانے ہیں۔ جن کے لیے راحت فتح علی خان، عارف لوہار، ابرار الحق، جابر علی اور امانت علی کے فن اور آوازوں کو استعمال کیا گیا ہے۔
’زندہ بھاگ‘ کے فلم ساز مظہر زیدی اور ہدایت کار مینو و فرجاد نبی نے ٹریلر دکھائے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ فلم پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
مصنف اور ڈائریکٹر مینو اور فرجاد کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان میں فلم بنانے والے نئے لوگوں کو بھی موقع ملنے لگا ہے۔
مظہر زیدی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انھیں پوری امید ہے کہ ’زندہ بھاگ‘ پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہو گی۔
ٹریلر کے بعد ناظرین کو فلم کا پوسٹر بھی دکھایا گیا اور مظہر زیدی نے بتایا کہ یہ فلم کے پوسٹر کی پہلی نمائش ہے اور اس پوسٹر کو پاکستانی فلمی صنعت کے کہنہ مشق فلم پوسٹر آرٹسٹ ایس اقبال نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔
واضح رہے کہ اب تمام پوسٹر یہاں تک کہ بینر بھی پاکستان میں ڈیجیٹل طریقے سے ڈیزائین اور پرنٹ کیے جاتے ہیں۔
ٹریلر اور پوسٹر کے اجرا کے بعد فلم کی کہانی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا لیکن یہ ضرور بتایا گیا کہ یہ فلم لاہور کے تین نوجوانوں کے گرد گھومتی ہے اور پنجابی اور اردو میں ہے۔
ٹریلر سے کہانی کا جو خیال سامنے آتا ہے اس کے مطابق یہ تین نوجوان مستقبل بنانے کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ ان کا سہارا لیتے ہیں جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجتے ہیں اور باہر کی دنیا کے بارے میں وہ سنہرے خواب دکھاتے ہیں جو بے بنیاد ہوتے ہیں۔
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس فلم میں مزاح کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مظہر زیدی نے بتایا کہ انھیں امید ہے نصیر الدین شاہ کی وجہ سے فلم بینوں کو فلم میں یقینی طور دلچسپی پیدا ہو گی اور یہ پہلی پنجابی فلم ہے جس میں نصیرالدین نے کام کیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ نصیر الدین شاہ کے شکر گذار بھی ہیں کیوں کہ انھوں نہ صرف فلم میں کام کیا بلکہ فلم میں شامل اداکاروں کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ بھی کیا، جس کی وجہ سے اداکاروں کو یقینًا بہت مدد ملی ہو گی۔
No comments:
Post a Comment